دل میں تم ہو خیال میں تم ہو
سانس کو سر میں تال میں تم ہو
سوچ کے دائروں میں ہو سمٹے
میرے ماضی میں حال میں تم ہو
مجھ کو آتی ہے بو ہتھیلی سے
کیا لکیروں کے جال میں تم ہو
جو خدا کے حضور رکھے ہیں
میرے ہر اک سوال میں تم ہو
ہائے کیسے کہوں میں یہ ان سے
میرے دل کے ملال میں تم ہو
دن کے مہکے اجالے میں دیکھوں
شب کے روشن ہلال میں تم ہو
اس لیے ہجر اچھا لگتا ہے
ہجر کے اس جمال میں تم ہو
شاز کیسے کہوں میں اب ان سے
خود پرستی کے جال میں تم ہو