سیپ لہروں نے جب اچھالے کئی
دکھ سمندر نے پھر سنبھالے کئی
عشق کے نام پر عداوت نے
کاسہِ من میں درد ڈالے کئی
بچ گئی اس لیے ترے غم سےیار
رنج و غم اک دعا نے ٹالے کئی
جب جدائی کا موڑ آیا تو
لفظ ہونٹوں نے پھر سنبھالے کئی
جسم اور روح کی خموشی نے
بن لیے دل میں دیکھ جالے کئی
جان لیوا تھے روح کے نشتر
آسماں تک گئے جو نالے کئی
یارِ من شاز ہم سے بچھڑا تو
دل سے پھر مٹ گئے حوالے کئی