Shaz Malik

تحریر (ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری)

شاز ملک کی افسانہ نگاری

تحریر   (ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری)

شاز ملک‘کئی برسوں سے فرانس میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اردوادب کی ترقی و ترویج کے لئے فرانس میں ایک ادبی فورم ”فرانس پاک انٹرنیشنل فورم“بھی بنایا ہے جس کے ذریعے وہاں پر کئی ادبی پروگرام ہوئے ہیں۔شاز ملک ایک شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ فکشن نگار اور کالم نویس بھی ہیں۔ان کے اب تک پانچ شعری مجموعے”دل سمندر تو ذات صحرا ہے“(2016ء)”ذرا تم ساتھ میں رہنا“ (2017ء)’’روحِ عشق“(2020ء)”کاسۂ من“(2022ء)”دل کا نیلا سمندر “ (2024ء)‘تین ناول”روح آشنا“(2016ء)عشق گوہر ذات“ (2018ء)”ملکانی“(2023ء)اور دو افسانوی مجموعے ”دل درگاہ“(2019ء)اور”روزن زیست“(2022ء)شائع ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ان کی تخلیقات اور مضامین پوسٹ ہوتے رہتے ہیں اور ان کی غزلیات کی سی ڈی بہ آواز گائیک شیو دیپ مکھر جی 2017ء میں انڈیا سے رلیز ہوئی ہے۔کئی ایوارڈ بھی ملے ہیں اور عالمی سطح کے کئی ادبی پروگراموں میں شرکت بھی کرچکی ہیں۔ شاز ملک کی شاعری اور فکشن میں جگہ جگہ دل کا درد اور روح کے کرب کا تخلیقی اظہار موثر انداز سے نظرآتا ہے‘ دل کا یہ دل اور روح کا یہ کرب وجدانی کیفیت کاحامل ہے نہ کہ سفلی جذبات و احساسات کا: یہ سچ ہے روح کے اندر عقیدت سانس لیتی ہے تبھی تحریر میں میری شہامت سانس لیتی ہے (شہامت بہ معنی عظمت) دل رواں جس کا ہو اک مرشد کامل کی طرف کون روکے گا اسے جانے سے منزل کی طرف جہاں تک شاز ملک کی افسانہ نگاری کا تعلق تو ان کے افسانوی مجموعے میری نظرسے گزرے ہیں‘جن کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ موصوفہ کہانی بننے کے فن سے واقف ہیں۔ افسانہ لکھنے کے دوران یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ افسانہ نگار اپنے خیالات کو پلاٹ میں مناسب ترتیب سے پیش کرنے کے فن سے واقف ہو‘ اس تناظر میں دیکھیں تو شاز ملک کے افسانوں ”تین لفظ“”محبت زندگی میری“”چپ کے بھنور“وغیرہ میں خیالات کو پلاٹ کے سپرد کرنے کا مناسب فنی اسلوب نظرآتا ہے۔دراصل شعر و فکشن کی تخلیق مشاہدات و تجربات کا حاصل ہوتی ہے یعنی یہی تجربات و مشاہدات جب احساسات کا حصہ بنتے ہیں تو حساس اور ماہر تخلیق کار کی تخلیق کا حصہ بن جاتے ہیں۔اب جس کا مشاہدہ یا تجربہ جتنا وسیع ہوگا تو اس کی تخلیق میں بھی اتنی ہی وسعت نظر آئے گی۔افسانہ ”تین لفظ“میں ایک اہم سماجی ایشو کو ڈسکورس بنایا گیا ہے‘ جو کہ طلاق جیسی بدعت پر ہے‘ جسے اسلام میں بھی اجازت ہونے کے باوجود ناپسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے‘ یہ بدعت اب ناسور بن کرمسلم سماج میں پھیل چکی ہے کہ معمولی یا قابل اعتذار باتوں پر بھی مرد اپنے ہوش و حواس کھوبیٹھ کر منہ سے تین لفظ نکالتا ہے اور پھر سارے خاندان کا نظام دھرم بھرم ہوجاتا ہے۔افسانہ نگار نے اس فعل قبیع کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے میاں بیوی’عثمان‘ اور ’صبا‘کی کردار نگاری میں طلاق کے عائلی اور نجی زندگی کے نفسیاتی وازدواجی مسائل کو کہانی کاحصہ بنایا ہے۔شادی کے بعد جب عورت شوہر کے گھر چلی جاتی ہے تو اصل میں اب یہی اس کا اپنا گھر بن جاتا ہے لیکن پھر اس کو گھر سے بے گھر کرنے یا جسمانی و روحانی عذاب میں ڈالنے کی وجہ زیادہ تر سسرال والوں کی انانیت‘ہٹ دھرمی اور بے جا مداخلت بن جاتی ہے۔افسانے میں صبا کو طلاق دینے کی وجہ بھی یہی عناصر ہیں.وہ جب اپنے شوہر سے سسرال والوں کی بے جا دخل اندازی کی شکایت کرتی ہے تو وہ آگ بگولہ ہوکر بغیر سوچے سمجھے طلاق دے دیتا ہے لیکن افسانے کا آخری حصہ ڈرامائی انداز سے اس روایتی موضوع میں نئی روح پھونک دیتا ہے کیونکہ طلاق ملنے کے بعد جب صبا اپنی بہن نبا کے ساتھ میکے چلی جاتی ہے تو وہ اپنی بہن کواس ناقابل برداشت صدمے کے باوجود صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئی سمجھاتی ہے کہ ابھی اس جان لیوا خبر کا ذکر کسی سے بھی مت کرنا۔یہاں پر افسانہ نگار نے بڑی ہنرمندی سے افسانے کا رخ کسی اور معاملے کی طرف موڈ دیا ہے اگر طلاق کی خبر پوشیدہ نہیں رکھی جاتی تو افسانے کا آخری حصہ متاثر کرنے سے قاصررہ جاتا۔طلاق ملنے کے بعد جب وہ میکے چلی جاتی ہے تو اسے اپنے والد جو کہ ابھی طلاق کے مسئلے سے بے خبر تھا‘کے کہنے پر دوبارہ سسرال جانا پڑتا ہے کیونکہ اسی دوران اس کے شوہر”عثمان“کا انتقال ہوچکا ہوتا ہے۔وہ جب شوہر کی لاش کو دیکھتی ہے تو اس کے دوہرے صدمے کا نقشہ افسانہ نگار نے دل فگار انداز سے یوں کھینچا ہے: ”….اب وہ خاموش تھا اور میرے اندر کی عورت بول رہی تھی۔اسکی گھٹی گھٹی چیخوں کے ہاتھ چپ کے الجھے بھنور میں ڈوبتے ابھرتے ہوئے درد کی کتاب کھول رہے تھے اور میری بے بسی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ وہ میری وفاؤں کی موت پر ماتم کرے یا اس شخص کے مرنے پر جو کچھ لمحے پہلے مجھے اپنی زندگی سے حرف غلط کی طرح مٹا کر مجھ سےناطہ توڑ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ نبا نے صبا کو سہارا دیا تو صبا نے نبا کی جانب دیکھ کر دھیرے سے کہا کہ میری بہن میں طلاق کا ماتم کروں یا بیوگی کا۔“ اسی طرح افسانہ ”چپ کے بھنور“ایک ایسا افسانہ ہے جو ذات کے کرب پر تحریر ہوا ہے۔افسانے کا مرکزی کردار ”شاہان“ایک آئیڈلسٹ انسان ہوتا ہے جو محنت‘لگن اور ایمانداری کو زندگی کا جوہر سمجھتا ہے لیکن انسانوں کی مطلب پرستی‘لالچ اور پینترے بدلنے کے فن سے سخت مایوس ہوجاتا ہے اور خود کو رنگ بدلتی دنیا میں مس فٹ پاتا ہے.مجموعی طور پر یہی کرب اس کے لئے چپ کا بھنور بن جاتا ہے اور وہ ذات کا کرب جھیلتے جھیلتے حساس ہونے کے باوجود بے حس دکھائی دیتا ہے۔افسانہ نگارنے بڑی فن کاری کے ساتھ کردار کے داخلی کرب اور خارجی رویوں کو دلنشین انداز سے کہانی کا حصہ بنایا ہے‘جس کی وجہ سے قاری کہانی سے لطف اندوز ہوجاتا ہے۔شاز ملک صاحبہ کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں صرف خیالات یا تصورات ہی پیش نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ بھرپور کہانی کے حامل ہوتے ہیں البتہ کہیں کہیں پر محسوس ہوتاہے کہ پلاٹ غیر ضروری طوالت کا شکار ہے جس کی وجہ سے افسانے کا وحدت تاثر متاثر ہوجاتا ہے۔لیکن یہ فنی سقم چند ہی افسانہ میں موجود ہے باقی افسانے اچھی طرح سے فکشنائز ہوئے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *