حقیقت بنتے دیکھااس کو اپنی زندگانی میں
جو بچپن میں سنا تھا ہاۓ قصہ بے دھیانی میں
جہاں الفاظ بن کر سانپ ڈس جائیں سماعت کو
وہیں دم توڑ دیتی ہے محبت بے زبانی میں
محبت کے تعلق کی کسے اب تک سمجھ آئی
طلب کا کھیل ہے سارامحبت کا جوانی میں
کہاں کب واسطہ ہوتا ہے سچائی کا رشتوں سے
گزر جاتی ہے ساری عمر دشتِ رائیگانی میں
عجب یہ بات ہے مجھ کو سمجھ اب تک نہیں آئی
بدلتے ہیں کہاں کردار اُلفت کی کہانی میں
پتا چلتا نہیں کب آستیں میں سانپ پلتے ہیں
کریں کس پر یقیں جذبات کی الجھی کہانی میں
تعلق بوجھ بنتا ہے محبت جھوٹ لگتی ہے
دیارِ زندگی رنج و الم کی سائبانی میں
ملا کر خاک میں خود کو یہ میں نے معجزہ دیکھا
گھلا ہے رنگ مٹی کا فضائے آسمانی میں
کسے معلوم تھا بن کر قیامت دل سے گزرے گی
کہی تھی شاز میں نے بات جو یونہی روانی میں