درد کا رنگ کتنا گہرا ہے
دل سمندر تو ذات صحرا ہے
کھول دیتا ہے روح کی گرہیں
لب پہ اک چپ کا جو یہ پہرہ ہے
دھڑکنوں تم بتاؤ کچھ مجھ کو
دل کی بستی میں کون ٹھہرا ہے
میں تو کچھ بھی کہوں نہیں سنتا
دل یہ بہرا تھا اور بہرا ہے
بھید ہم پر کھلا یہ اب جا کر
رنگ یادوں کا کیوں سنہرا ہے
سب کی اپنی مسافتیں جاناں
راہ میں کس کی کون ٹھہرا ہے
شاز اس زندگی کے رستوں پر
ہر قدم موت کا ہی پہرہ ہے