شاز ملک کی معطر شاعری
پاکستان کی تاریخ میں جو سیالکوٹ کی فضیلت ہے وہ علم و دانش کی مرہونِ منت ہے، اِس علم و دانش کا جب ذکر ہوتا ہے تو علامہ اقبال،فیض احمد فیض،اور امین حزیں سیالکوٹی کا نام آتا ہے اْن کے ساتھ اْن کے استاد شمس العلماء مولوی مہر حسن کا نام بھی آتا ہے، اِس سرزمین کے حوالے سے یوں تو کئی لکھاریوں کے نام آتے ہیں،نسائی ادب میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی بین الاقومی سطح پر اپنی شاعری کو منوا کر پیرس میں مقیم شاعرہ افسانہ نگار کالم نویس ناول نگار محترمہ شاز ملک کا بھی اپنا ہی الگ مقام ہے، شاز ملک فرانس پاک انٹرنیشنل رائٹر فورم کی بانی ہیں، پاکستان اور فرانس میں اردو شاعری کی ترویج و اشاعت میں کماحقہ خدمات سرانجام دے رہی ہیں، شاز ملک کی ادبی خدمات وقار اور سنجیدگی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے اْن کی شاعری عصرِ موجود کی شاعری ہے اْن کے ہاں روایات، اخلاقیات اور سماجیات کی مکمل پاسداری ہے اْن کی شعری نگارشات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ادب اور شاعری سے ان کا رشتہ اعلیٰ معیار کا حامل ہے اْن کے ہاں ایک عصری رویہ ملاحظہ ہو۔
جب کرونا کی ہے وبا پھیلی
درد کے ایسے سال پر چپ ہوں
شاز ملک جہاں عصری رویوں اور انسانی اقدار پر بھرپور توجہ دیتی ہیں وہیں زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور واقعات تہذیبی رویوں کے شکست و ریخت وارداتِ قلبی داخلی اور خارجی عوامل پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں اْن کا یہ عمل اْن کو اردو شاعری کے افق پر زندہ و جاوید رکھے گا۔
درونِ ذات کی بات ہو یا کربِ آگہی کا ذکر شاز انتہائی سادہ اور شائستہ
لہجے میں شعر کہتی ہیں، یہ سادہ کاری اْن کی زندگی کا عکس بھی ہے، اب دیکھیں کس قدر آسانی سے شاز ملک نے ایک شعر کے سہارے اپنی بات مکمل کی ہے ملاحظہ ہو۔
کوئی ناراض ہو جائے تو اکثر سوچتی ہوں میں
بشر کے دل میں جانے کیوں عداوت سانس لیتی ہے
شاز ملک کے اِس سے قبل چار شعری مجموعے اشاعت پذیر ہو چکے ہیں جن میں دل سمندر تو ذات صحرا، روحِ عشق، ذرا تم ساتھ میں رہنا اور کاسہِ من شامل ہیں زیرِ نظر نگارش دل کا نیلا سمندر اشاعت کے لیے تیار ہے ِاس میں جہاں فلسفہ حیات نمایاں ہے وہیں زندگی کے کرب اور دردِ مسلسل اپنے مخصوص انداز میں نمایاں ہیں، جس میں اْن کا ذاتی مزاج، سوچ کا زاویہ، دل فریب اظہاریے، شعری جمالیات، سادگی، روانی، تہہ در تہہ رومانوی راز،محبت کا جذبہ، شعری رمزیت، چنیدہ لفظیات، ہجر و انتظار، حزن و ملال و دیگر متنوع مضامین پوری طرح مہک رہے ہیں جن کا اظہار مندرجہ ذیل اشعار سے ملتا ہے۔
مجھ پہ وا احساس کا در کیا ہوا
میرا سایا ہی ستمگر بن گیا
تو نہیں ہے تو پھر بتا تو ہی
یہ جو روشن ہے بام پر کیا ہے
ملے جو دسترس گر وقت پر تو دیکھ لینا یہ
کتابِ دل سے میں پھر نام تیرا کاٹ سکتی ہوں
میں دل کی دھڑکنوں کا رکھوں کس طرح حساب
یہ پوچھنا ہے آج مجھے اِک طبیب سے
عمر گزری ہے مری یوں تو سفر میں لیکن
تم نے دیکھے ہی نہیں پاؤں کے چھالے میرے
درج بالا اشعار کی شعریت معنویت اور علامتوں کا بھرپور اظہار شاز ملک کی بھرپور اور توانا آواز ہے اور آواز بھی ایسی جیسا کہ فرانس کی خوشبوأں کا چرچا دنیا بھر میں ہوتا ہے، یوں کہہ سکتے ہیں کہ شاز ملک کی شاعری ایک معطر شاعری ہے، اِن کے ایک ایک مصرعے میں خوشبو رچی بسی ہے، یہ خوشبو اپنے قاری کو غور و فکر پر مجبور کر دیتی ہے، شاز ملک کے گزشتہ چار شعری مجموعے اور حالیہ شعری مجموعہ دل کا نیلا سمندر کے مطالع کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ اِن کی شاعری ردیف و قافیہ کی شعبدہ بازی سے کہیں آگے کی ہے، زبان و بیان اور عروض پر قدرت رکھتی ہیں اِن کا ذاتی مشاہدہ و ریاضت اِن کی شعری تاثیر میں چاشنی پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہے، شاز ملک کی تازہ کاری ایک نئے پن کا احساس ہے یہ نیا پن اور ندرتِ خیالی اِن کا امتیاز بن کر سامنے آیا ہے۔
اْمید واثق ہے کہ اِن کی فکر انگیزی بلند خیالی اور شعری فنی امور کی ہنر مندی اِنہیں نہ صرف اپنا معیار برقرار رکھنے میں مدد کرے گی بلکہ فکر و خیال میں مزید وسعت پیدا کرے گی، پیرس کی فضاؤں میں کہے گئے اشعار اپنی جمالیات کے سہارے پوری دنیائے شاعری کو معطر رکھے گی۔
رانا خالد محمود قیصر
ریسرچ اسکالر کراچی یونیورسٹی
















































