صحرا نہیں لگا کبھی دریا نہیں لگا
لیکن یہ عشق ہم کو تو اچھا نہیں لگا
اس بار اس نے خون سے لکھا ہے خط مجھے
اس بار مجھ کو دھوکا بھی دھوکا نہیں لگا
کل رات عکس ابھرے تھے انجان سے مگر
ان میں سے کوئی بھی تو انوکھا نہیں لگا
کھینچے گئے ہیں تار مقدر کے تب ہی تو
دنیا نے مجھ پہ تیر جو کھینچا نہیں لگا
جب یہ زمیں وہی ہے وہی آسمان ہے
پھر اپنا ملک کیوں مجھے اپنا نہیں لگا
سنتی رہی ہوں جھوٹ جو ہر اک زبان سے
کچھ اس لیے بھی شعر یہ سچا نہیں لگا
کیسے میں اپنے دل کو بھلا دوں تسلیاں
الزام اس پہ شہر میں کیا کیا نہیں لگا
بھیجے ہیں اس نے پھول کئی نام پر مرے
لیکن کہیں سے اس کا یہ تحفہ نہیں لگا
کیا پڑھ کے تو نے پھونک لیا شاز کچھ بتا
اس بار جو لکھا ہمیں جھوٹا نہیں لگا