Shaz Malik

صحرا نہیں لگا کبھی دریا نہیں لگا

صحرا نہیں لگا کبھی دریا نہیں لگا
لیکن یہ عشق ہم کو تو اچھا نہیں لگا

اس بار اس نے خون سے لکھا ہے خط مجھے
اس بار مجھ کو دھوکا بھی دھوکا نہیں لگا

کل رات عکس ابھرے تھے انجان سے مگر
ان میں سے کوئی بھی تو انوکھا نہیں لگا

کھینچے گئے ہیں تار مقدر کے تب ہی تو
دنیا نے مجھ پہ تیر جو کھینچا نہیں لگا

جب یہ زمیں وہی ہے وہی آسمان ہے
پھر اپنا ملک کیوں مجھے اپنا نہیں لگا

سنتی رہی ہوں جھوٹ جو ہر اک زبان سے
کچھ اس لیے بھی شعر یہ سچا نہیں لگا

کیسے میں اپنے دل کو بھلا دوں تسلیاں
الزام اس پہ شہر میں کیا کیا نہیں لگا

بھیجے ہیں اس نے پھول کئی نام پر مرے
لیکن کہیں سے اس کا یہ تحفہ نہیں لگا

کیا پڑھ کے تو نے پھونک لیا شاز کچھ بتا
اس بار جو لکھا ہمیں جھوٹا نہیں لگا

شاز ملک

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *