Shaz Malik

نسائی ادب کا ایک معتبر حوالہ شاز ملک

نسائی ادب کا ایک معتبر حوالہ شاز ملک

شاز ملک کی شاعری کا مسودہ میرے سامنے ہے اور اِن کی اِس سے پہلے چار شاعری پر مبنی کتب بھی زیرِ مطالعہ ہیں، میں بحیثیت طالبِ علم ادب شاز ملک کی شاعری کو پڑھ رہا ہوں اور اس میں موجود عکس اپنے طور پر تراش رہا ہوں میرا ماننا ہے کہ کوئی بھی شاعر کسی بھی انداز سے کسی بھی زاویے سے کسی بھی ماحول میں کوئی شعر کہتا ہے تو ضروری نہیں وہ جو کہنا چاہ رہا ہے وہ اِس شعر میں دکھائی دے بلکہ میرا ماننا یہ ہے کہ قاری کو اِس شعر میں اپنے مطلب کا عکس دکھائی دے یہ شعر کی گہرائی اور مکمل صحت بھی کہلائی جا سکتی ہے۔
شاعر کی شاعری انکشاف کرتی ہے کہ شاعر کا سیاسی و سماجی شعور کس مقام پر ہے اور کس قدر متوازن اور پختہ ہے، شاعر کی آنکھوں پر مخصوص نظریے کی عینک تو نہیں جس میں اْسے اپنے سوا تمام کے خیالات و نظریات دھندلے نظر آتے ہوں۔میں نے شاز ملک کی شاعری پڑھ کر اِن کے شعوری قد کاٹھ کا اندازہ لگایا اور میں بے ساختہ کہنے پر مجبور ہوا ہوں کہ دورِ حاضر میں نسائی ادب توانا شاعروں کی بدولت خوب پھل پھول رہا ہے۔
شاز ملک کا انداز، اسلوب اور لہجہ قابل رشک ہے، شاز ملک نے کہیں تصوف کا سہارہ لیا تو کہیں خوبصورت استعاروں اور تشبیہات کے زیور سے اپنی سوچوں کو خوبصورت سہل الفاظ کی بدولت شعر کی صورت اپنے قاری کے سامنے پیش کیا ہے شاز ملک نے روایت میں رہتے ہوئے روایتی اقدار نبھائی ہیں اور اپنا نسائی لہجہ برقرار رکھتے ہوئے اکیسویں صدی کی عورت کی نمائندگی بھی کی ہے جو میرے نزدیک بہت اہم ہے۔شاز ملک کے چند اشعار دیکھیں کیا کہہ رہی ہیں
مرے احساس نے یہ بارہا باور کرایا ہے
میں چاہوں تو ابھی ہر دکھ کا ہالہ کاٹ سکتی ہوں
اپنے اِسلاف کے رستے پہ نہیں چل پائے
بھول بیٹھے سبھی اقدار یہ گاؤں والے
ایسے ڈستا نہیں ہر ایک کو یہ جانتا ہے
اِس کی دنیا میں ہے کیا گوہرِ پھن کی قیمت
شاز ملک کے مندرجہ بالا تینوں شعر الگ الگ مزاج کے ہیں اور یہی شاز ملک کا شعور ہے جو اپنی روانی میں کئی بنجر زمینوں کو سیراب کر رہا ہے۔شاز ملک پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے تعلق رکھتی ہیں اور کافی عرصے سے فرانس کے شہر پیرس میں مقیم ہیں شاز ملک میری نظر میں اْن سیاہوں میں سے نہیں جو کاندھے پر تھیلے لٹکائے زمین کو قدم قدم ناپتے ہیں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے ہیں، اجنبی دیس کے ہر طبقہ معاش کے لوگوں کے درمیان روز و شب گزارتے ہیں اور پھر وہ تجربے سے آشنا ہوتے ہیں، بلکہ شاز ملک پیرس میں رہ کر بھی پاکستان سے جڑی ہوئی ہیں اور یہی لگن اور راہ داری جو پاکستان سے پیرس کے درمیان موجود ہے، اْسے شاز ملک نے قلم قرطاس سے سمیٹ کر اپنی دسترس میں رکھا ہوا ہے شاز ملک کی شاعری میں سلیقہ اور ہنر مندی اِس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے راہ سخن میں کئی مشکل منزلیں طے کی ہیں یہی سبب ہے کہ شاز ملک کی شاعری خود اِن کے ہونے کا اعتراف کر رہی ہے۔ شعر دیکھیں
لگا کے سینے سے تنہائی رات پچھلے پہر
مری ہی سمت عجب ہے چلا گئی مجھ کو
یہاں یہ اعتراف کیے بغیر کسی طور چارہ نہیں کہ شاز ملک کا فطری مزاج پوری آب و تاب کے ساتھ ِاس شعر میں موجود ہے اِسی بنا پر تو کہا جاتا ہے کہ لکھنے والے کا اپنا ہی رنگ ہوتا ہے شاز ملک کی شاعری میں بے ساختگی اِن کی شاعرانہ ساخت کو خوبصورت بنا رہی ہے، شاز ملک کی شاعری خوش طبعی و شائستگی سے لبریز ہے، شاز ملک نے قرطاس پر جو لکیریں کھینچی ہیں یہ لکیریں شاز ملک کے قلم کی رہین منت ہیں جو شاز ملک کے شعری قد کاٹھ کو قاری کے ذہن میں عکس کر رہی ہیں، شاز ملک نے عام زبان میں ایک سادہ سے مضمون کو جس انداز میں پیش کر کے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا وہ قابل قدر ہے، ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ چند اشعار دیکھیں۔
قدم قدم پہ آستین کے ملیں گے سانپ بس
بصیرتوں کے تیر رکھ میان میں اے شاز سن
بوڑھے شجر کی پہنچی ہے منزل پہ اِک دعا
شاخوں کے پیرہن تبھی پیلے نہیں ہوئے
مچا رہی ہے مرے دل میں شور تنہائی
میں غم کی آنچ پہ سوچیں اْبال کر چپ ہوں
شاز ملک کے مندرجہ بالا اشعار میرے تمام تجزیات کی دلیل ہیں جو اِس مضمون کے سہارے میں نے پیش کیے میری دعا ہے اللہ کریم شاز ملک کا دامنِ امید ہر بھرا رکھے اور اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
     ڈاکٹر سید تقی حیدر تقی
            شاعر و ادیب کیلی فورنیا امریکہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Picture of شاز ملک

شاز ملک

1974

سیالکوٹ

جائے پیدائش سیالکوٹ پاکستان حالیہ سکونت فرانس.

افسانہ نگار ناول نگار شاعرہ تصوف کے رنگ میں رچی بسی دیار غیر میں رہ کر بھی روایت سے جڑی ہوئی ہیں مجاز سے حقیقی کے سفرکو شاعری افسانوں اور ناول میں زیادہ اہمیت

Gallery

Interesting Books

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *