کبھی تعبیر ہو جاؤں کبھی تفسیر ہو جاؤں
وہ جب سوچے میں کاغذ پر کہیں تحریر ہو جاؤں
تری ان پتلیوں کے پار بس میری ہی مورت ہو
تو دیکھے خواب میں اس خواب کی تعبیر ہو جاؤں
اگر میں ٹوٹ کر بکھروں کہیں دل کے محلے میں
سمیٹے تو مجھے اور پھر سے میں تعمیر ہو جاؤں
بٹی ہے زندگی میری کئی حصوں میں اے جاناں
مگر جب تو کبھی چاہے تو میں تسخیر ہو جاؤں
محبت کے سفر میں گر اچانک موڑ آ جائے
تو ہو یہ معجزہ میں پاؤں کی زنجیر ہو جاؤں
مرے ہاتھوں میں آ جائیں اگر تقدیر کی ڈوریں
ہلا کر ڈور کوئی میں تری تقدیر ہو جاؤں
خدا سے مانگتی ہے شاز اب تو یہ دعا ہر دم
زباں وہ بخش دے مجھ کو میں پرتاثیر ہوجاؤں
شاز ملک