کہانی کو نیا اک موڑ دینا ہی غنیمت ہے
یہاں کردار کا دل توڑ دینا ہی غنیمت ہے
جہاں احساس مر جائے محبت ختم ہوجائے
ادھورے ساتھ کو پھر چھوڑ دینا ہی غنیمت ہے
مسافت سے مسافر یونہی گھبرانے لگے تو پھر
سفر میں رخ ہوا کا موڑ دینا ہی غنیمت ہے
عبادت شوق سے کرلو خدا کی ہاں مگر سن لو
کوئی ٹوٹا ہوا دل جوڑ دینا ہی غنیمت ہے
محبت میں محبت کو نئی تحریک دینے کو
کمر خواہش کی اپنی توڑ دینا ہی غنیمت ہے
ادھوری زندگی کو لوگ جیتے ہی بھلا کب ہیں
یہاں احساس کو جھنجھوڑ دینا ہی غنیمت ہے
ہنسی میں شاز جب اپنی اڑا دیں چاہتوں کو تو
کسی دیوار سے سر پھوڑ دینا ہی غنیمت ہے