Shaz Malik

ہونے کا اپنے راز اجاگر کروں تو کیا

ہونے کا اپنے راز اجاگر کروں تو کیا
یعنی کے اپنے ساتھ ستمگر کروں تو کیا

اس زندگی نے راہ، یقیں تک تو چھین لی
میں خود کو اپنے قد کے برابر کروں تو کیا

کچھ بھی نہیں ہے دینے کو اب دانِ زندگی
میں پیش تیرے روبرو اس پر کروں تو کیا

جب زندگی ہو تخت نشیں اس گمان پر
سانسوں کو عشق سے میں معطر کروں تو کیا

تم نے تو اپنی راہ جدا کرلی خیر ہے
میں دل میں اپنے درد چھپا کر کروں تو کیا

تشنہ لبی نے دے دیا جینے کا فلسفہ
اب انتظارِ وقت سمندر کروں تو کیا

جب دسترس میں شاز ہے قرطاس کی زمیں
کیوں سوچتی ہوں نذرِ مقدر کروں تو کیا

شاز ملک

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *