ہونے کا اپنے راز اجاگر کروں تو کیا
یعنی کے اپنے ساتھ ستمگر کروں تو کیا
اس زندگی نے راہ، یقیں تک تو چھین لی
میں خود کو اپنے قد کے برابر کروں تو کیا
کچھ بھی نہیں ہے دینے کو اب دانِ زندگی
میں پیش تیرے روبرو اس پر کروں تو کیا
جب زندگی ہو تخت نشیں اس گمان پر
سانسوں کو عشق سے میں معطر کروں تو کیا
تم نے تو اپنی راہ جدا کرلی خیر ہے
میں دل میں اپنے درد چھپا کر کروں تو کیا
تشنہ لبی نے دے دیا جینے کا فلسفہ
اب انتظارِ وقت سمندر کروں تو کیا
جب دسترس میں شاز ہے قرطاس کی زمیں
کیوں سوچتی ہوں نذرِ مقدر کروں تو کیا