شاز ملک بادِمخالف محوِپرواز شاعرہ
تحریر نسیم شیخ
شاعری زندگی کے تجربات و مشاہدات سے وابستہ احساسات و جذبات کے اظہار کا نام ہے شاعری ایک ایسا کوزہ بھی کہلایا جا سکتا ہے جس میں انسان اپنے جذبات کا بے کراں سمندر قید کرتا ہے۔زندگی کیونکہ ہر انسان کو الگ الگ تجربات سے گزارتی ہے کہیں امتحان در امتحان تو کہیں خوشیاں اور کامیابیاں یہ عجیب کھیل ہے قدرت کا جس میں انسان کھلونابن کر ادھر ادھر دوڑ رہا ہے۔
رنج وغم درد بے وفائی ہجر و فراق ہی شاعری نہیں بلکہ شاعری ایک زندہ ہتھیار ہے جو انسان کو قوت بھی بخشتی ہے اور گھنگور رستوں کے درمیان رستہ بھی دکھاتی ہے شاعری کو جس معنی میں بھی پرکھیں گے شاعری اس پر پوری اترتی دکھائی دے گی۔بالکل اسی طرح زندگی بھی ہر انسان کے ساتھ مختلف سلوک روا رکھتی ہے اس لیے ہر انسان کا اظہار بھی مختلف صورتیں رکھتا ہے۔زمین کی گود نے ان گنت شعرائے کرام کو پال پوس کر پروان چڑھایا ان میں کچھ ایسے ہیں جو اس دنیائے فانی سے رخصت ہو کر بھی دلوں میں زندہ ہیں اور برسوں بیت جانے پر بھی موضوعِ گفتگو رہتے ہیں یہ کمال بھی شاعری کا ہی ہے۔آج کے اس تیز رفتار دور میں جہاں زندگی انگلیوں کی حرکات تک محدود ہو کر رہی گئی ہے وہاں چند خوش نصیب ایسے بھی اس دنیا کے نقشے پر موجود ہیں جو اپنے جذبات کی ترجمانی شعر میں کرتے ہیں اور وہ شعر ان کے قلم سے قرطاس پر مہکتا ہے پھر اس کی خوشبو میلوں کا سفر منٹوں میں طے کرتے ہوئے اس انسان کو امر کر دیتی ہے۔بالکل اسی طرح آج میرے سامنے دیارِغیر میں موجود قلم کی سپاہی شاز ملک کی سوچیں ان کے ترتیب دئیے ہوئے الفاظ کے لباس میں اپنی آب و تاب سے چمک رہی ہیں اور مجھے مجبور کر رہی ہیں کہ میں ان الفاظ ان مصرعوں ان اشعار ان غزلوں ان نظموں پر اپنی رائے دوں دراصل یہ مسودہ محض شاعری پر مبنی نہیں بلکہ اس میں جابجا شاز ملک ایک جنگ میں مصروف دکھائی دیتی ہیں کہیں زخم کھا کر گرتے ہوئے کہیں غازی بن کر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے لوٹتے ہوئے۔
ٗٗٗ شاز ملک کے زیر نظر مجموعے ( ذرا تم ساتھ میں رہنا) نے مجھے چونکنے پر مجبور کیا اور میں مسلسل ان کے اشعار کی قرات میں گھنٹوں رہا اور اس نتیجے پر پہنچا کے شاز ملک کی شاعری میں دامنِ دل کھینچ لینے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔شاز ملک نے سچے جذبات کا سچا اظہار شاعری کے سہارے بیان کیا ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی دکھائی دے رہی ہیں۔
شاز ملک کے جس شعر نے مجھے چونکایا وہ شعر کوئی ہجر و فراق کا نہیں کسی گلِ لالہ غزل سے نہیں محبوب کی بے وفائی یا زمانے کی دہائی نہیں بلکہ وہ شعر زندگی اور موت کی ترجمانی ہے اس شعر کو پڑھنے کے بعد میرے جسم میں سرسرائییت دوڑ گئی یہ شعر ایسے ہی معرضِ وجود میں نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے شاز ملک کی پروازِ تخیل ہے جو مکاں و لامکاں کے درمیان محوِ پرواز ہے اور نئی نئی جدتیں کھوج رہی ہے۔یہ شعر میری اس بات کی گواہی دے گا۔
زندگی ہے بہت حسین مگر
موت کی اپنی راحتیں جاناں
شاز ملک کی شاعری جہاں اپنی تازگی کا احساس دلاتی ہے وہیں احساس کے پھول بھی کھلا رہی ہے جیسے جیسے شاز ملک کی شاعری پڑھتا جا رہا ہوں ویسے ویسے مجھے اپنے لکھے ہوئے یہ لفظ بے رنگ سے محسوس ہو رہے ہیں کیونکہ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کے شاز ملک نے مجھے حیرت کے سمندر میں باقائدہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔شاز ملک کی شاعری میں عشق اپنے روائیتی معنوں سے ذرا مختلف دکھائی دیتا ہے تاہم وہ اپنے عشق میں سچے جذبات کے سچے اظہار میں کافی حد تک کامیاب دکھائی دے رہی ہیں ۔ میں نے شاز ملک کی شاعری سے ان کے قد کا اندازا لگایا تو مجھے اپنا سر فخر سے اونچا کرنا پڑا کیونکہ شاز ملک کے اس مجموعے پر میں اس قابل ہوا کہ اپنا قلم چلا سکوں۔
شاز ملک نے اپنے طبعی وجود کو محسوس کرتے ہوئے یقیناًیہ شعر کہا ہوگا کیونکہ اس شعر میں شاز ملک ایک مختلف رنگ میں رنگی دکھائی دیتی ہیں۔شعر کچھ یوں ہے کہ
جو محبت سے دل میں بس جائے
اس کو دل سے جدا نہیں کرتے
یعنی شاز ملک کے نزدیک وفا کی اہمیت کا احساس اور ان کا یقین ہے یہ وہ بات ہے جو شاز ملک کی سوچوں اور جذبات کو کھل کر سمجھا رہی ہے۔المختصر شاز ملک اپنے اس مجموعے میں جا بجا جلوہ افروز ہیں اور یہ اس بات کی خمازی ہے کہ ایک سچا شاعر اپنا عکس قرطاس پر منتقل کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور اس شاعر کے الفاظ اس کی سوچوں اور شخصیت کے ترجمان بن جاتے ہیں جیسا کہ شاز ملک کا یہ شعر جو شاز ملک کے شعری قد کا آئینہ بن کر آپ کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کے لیے اس کتاب میں علمبردار ہے۔اور یقیناًیہ شعرآپ کا نمائندہ شعر کہلانے کا حقدار ہے۔
آکبھی ڈھونڈنے مجھے تو بھی
بند ہونٹوں کی آہ میں ہوں میں
میں نہ ہی شاز ملک سے کبھی ملا نہ میں انہیں زیادہ جانتا ہوں مجھے آپ کا یہ مجموعہ تنقیدی و تعریفی بھٹی سے گزارنے کے لئے دیا گیا اب میرے لئے نہ ہی یہ آسان ہے اور نا ہی یہ مشکل کام کیونکہ میں شاز ملک کی شخصیت کو نہیں جانتا مگر آپ کی شاعری آپ کی سوچوں اور شخصیت کی ترجمان بن کر میرے سامنے گویا بیٹھی ہوئی ہے اور مجھ سے ہمکلام ہے کہ میں ہوں شاز ملک۔
ٗٗ اس روشنی میں میرے لئے کچھ آسانی ہوئی کہ میں شاز ملک کے مجموعے پر گہری نگاہ ڈال سکوں گو کہ عروضی خامیاں کہیں کہیں دکھائی دیں مگر ان خامیوں پر آپ کی مضمون بندی نے گویا پردہ ڈال دیا اس خوبصورتی سے حالات سے بچ کر اپنی شفاف سوچوں اپنی پر خلوص عادت اور وفا کی گھٹی کے زیر اثر مجھے شاز ملک قرطاس پر کہیں سسکتی دکھائی دیں تو کہیں ان کی کھلکھلا ہٹ نے مجھے بھی مسکرانے پر مجبور کیا۔اور میں یہ کہنے کے قابل ہوا کے شاز ملک اس قبیلے سے متعلق ہیں جو محض صحرا و دشت میں اس لئے سفر کرتا ہے تاکہ اس کی آبلہ پائی صحرا و دشت کی تشنگی دور کرنے کا سبب بن سکے۔یہ جذبہ مجھے شاز ملک میں اور ان کی شاعری میں جا بجا دکھائی دیا۔جذبات کی شدت ہو یا عشق کی سرشاری ہو ان کا خوبصورت اظہار اس کی اپنی صفات ہیں جو آپ کی شاعری میں ورد کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
شاز خوابوں کا قرض ہے حسرت
بارہا یہ بتا رہا ہے کوئی
گرچہ کہ شاز ملک سے میری پہچان نہ ہونا اور ان سے کبھی ملاقات کا بھی نا ہونا مجھے شاز ملک کو پہچاننے میں مشکلات پیدا کرنے میں بری طرح ناکام رہا کیونہ میں نے شاز ملک کو ان کی شاعری میں تلاش کر لیا اور اب میں کہہ سکتا ہوں کہ شاز ملک دور حاضر کی وہ شاعرہ ہیں جو بحرِ سخن کی آلودگی کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔کیونکہ آپ کی یہ وحشتیں شدتیں وفائیں اور خلوص کی حدود کو پار کر لینا جیسی صفات ہی ایک تخلیق کار کا شاعری میں طرہ امتیاز ہوتا ہے جو مجھے آپ کی شاعری پڑھ کر صاف دکھائی دے رہا ہے۔
یہاں اس نازک بات کو محسوس کیجئے کہ شعری روایت سے اپنی فطری اور لاشعوری وابستگی میں جب شاز ملک کی جدیدیت جذبہ کی فراوانی شامل ہوئی تو شاز ملک کے ایک لہجہ نے جنم لیا جو اہلِ دل اور تشنہ شعر سماعتوں کے لئے سرمایہ جاں بن سکتا ہے۔آپ کا یہ شعر مجھے چنکا رہا ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ ایک قاری کو بھی چونکائے گا میں بلا تاخیر یہ شعر پیش کروں گا۔
مجھ کو جینے کی وہ دعا دے کر
موت آسان کر گیا آخر
یہ ہیں شاز ملک اور آپ کی شاعری یہ شعر اپنی ایک کیفیت رکھتا ہے اور اس کیفیت کے درپردہ جو لہجہ ہے وہ شاز ملک کی پرواز کا بگل بجا رہا ہے۔اور میری دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
ان الفاظ کے باوجود شاز ملک کے یہاں مجھے ان کا اپنا ہی رنگ دکھائی دیا جو بہت خوش آئیند ہے اور سب سے بڑی بات آپ کی شاعری میں موضوعات کی کمی دکھائی نہیں دی نہ ہی کسی عہد حاضر یا سابقہ دور کی شاعرہ کا رنگ آپ کی شاعری اور آپ کے رنگ کو رنگ سکا یہ بات اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ شاز ملک نے ممیراتی قوت کو قوتِ تخیلہ پر حکمران بنا لیا ہے اور جب ممیراتی قوت قوتِ تخیلہ کی حکمران ہوتی ہے تو تخیل پرواز کرتا ہے۔اور میں اس مجموعے کلام میں شاز ملک کے تخیل کو پرواز کرتے صاف دیکھ رہا ہوں میری دعائیں شاز ملک کے ساتھ ہیں۔
آخر میں شاز ملک کے اس شعر کا ذکر نا کرنا میرے نذدیک نا انصافی ہوگی کیونکہ یہ شعر نہیں ہے بلکہ اس میں شاز ملک بنفسِ نفیس موجود ہیں اور تخیل کی بلندی کو قرطاس پر عکس کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہیں۔
کیا محبت ہے کیا رفاقت ہے
سب ادھوری ہے داستاں صاحب
دعاگو
تحریر۔۔۔نسیم شیخ