حمدِ باری تعالیٰ
رحمٰن ہے رحیم خدا تو حسیب ہے
شہہ رگ سے اپنے بندوں کے تو ہی قریب ہے
سانسوں پہ اختیار ہے دھڑکن پہ اختیار
کرتا ہے اپنے بندوں سے تو پیار بے شمار
دریا بہائے تو نے سمندر بہا دیے
اور آسماں پہ چاند ستارے سجا دیے
مٹی سے تو نے چاک پہ انساں بنا دیا
اشرف کے مرتبے سے اسے پھر سجا دیا
عقل و شعور قوتِ گویائی بخش دی
اور قیمتی سماعت و بینائی بخش دی
قاصر ہوں تیری شان میں لکھنے سے کچھ خدا
کردے تو مجھ کو حرف کی دولت حسیں عطا
کہتی رہوں میں نعت کے اشعار جھوم کر
طیبہ کی سرزمین کو پلکوں سے چوم کر
بندی ہے شاز کہنے کو ہرچند بے نشاں
کہتی ہے شعر اس لیے کہ تو ہے مہرباں