مٹی سے مکالمہ
آج عجیب سے احساس میں گھر کر جب میں نے اپنے لان کی مٹی کو ہاتھ میں پکڑا تو میرے اندر ایک لہرابھری کیونکہ میں بھی مٹی کی سرشت رکھتی ہوں مٹی کو میں نے غور سے دیکھا اور ربِ کریم سے دل میں دعا کی کہ مٹی مجھ سے کلام کرے ۔۔۔ اور پھر اس التجا کی قبولیت یوں ہوئی کہ مٹی ایکُ چہرے کے ساتھ میرے سامنے روبرو ہوئی ۔۔ الحمدُللہ ۔۔ایک مٹیالی رنگت والا وجود جس میں مٹی کے سات رنگ موجود تھے میں نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھا اسکا چہرہ مٹیالا سا تھا مگر اسکے وجود میں کئی رنگ ظاہر تھے سفید مٹی کا رنگ ۔۔کالی مٹی کا رنگ ۔۔مٹیالی مٹی ۔۔۔بھوری مٹی ۔۔۔لال مٹی ۔۔۔پیلی مٹی ۔۔۔دھاری دار مٹی ۔۔ میں نے مٹی کی اس لباس کو غور سے دیکھا تو وہ بولی اے بنتِ حوا تیری تخلیق کا مظہر انسان کی پسلی ھے مگر مٹی کے عناصر کے سارے اثرات تم میں بدرجہء اتم موجود ہیں ۔ میں نے مسکرانے پر اکتفا کیا تو وہ ٹھنڈا سانس بھر کر بولی میں زمین ہوں رب تعالی نے میری جاگیر پاتالُ کی گہرائیوں تک دی ھے مجھے یہ فخر حاصل ھے کہ اس کائنات کی بہترین تخلیق انسان میرے وجود سے تخلیق کیا گیا یہ میرا اعلی نسبی فخر ہے یہ کہتے ہوۓ اسکی آواز میں فخر کے عنصر کو محسوس کیا مگر خاموش رہی چند لمحے وہ دل کھول کر ہنستی رہی اور میں دم سادھے اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی کہ اسکا وجود پل پل رنگ بدل رہا تھا چمک رہا تھا بالکل ایسے جیسے دشت میں ریت چمکتی ھے چاندی جیسی ۔۔۔۔مگر پھر یک لخت سنجیدہ ہو کر خاموشی سے مجھے دیکھنے لگی اور پھر بھرائی آواز میں کہنے لگی اللہ نے غم و خوشی کا توازن ہر مخلوق کے لئیے برابر کا رکھا ہے رتی برابر کمی بیشی کئیے بنا ۔۔ اور پھر زارو قطار رونے لگی اسکی آہ و زاری دیکھکر میری آنکھیں بھی نم ہو گئی کچھ دیر وہ بین بھی کرتی رہی اور پھر اسکی سسکیاں ہچکیاں ختم ہونے لگیں پھر شانت ہوئی تو کہنے لگی جب مٹی سے بنے انسان مجھ میں سما کر مٹی ہوتے ہیں تو میں مٹی پھر مٹی ہو جاتی ہوں وہ انسان جو میرے یعنی زمین کے سینے پر دندنا کر اکڑ سے چلتا ہے یہ یاد رکھے بنا کہ ایک دن اسےاسی زمین کے نیچے آنا ہے میں نے شرمساری سے گردن جھکا لی وہ کہنے لگی اگر میں تمہیں کہوں کہ مٹی سے نفرت کرنے والا انسان کیسے اور کتنی اذیت سے مٹی ہوتا ہے اور میری گہرائیوں میں پلنے والی مخلوقات کا کھاجا بنتا ہے تو تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائینگے میں ہڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی اور استغفر اللہ پڑھنے لگی تو وہ مسکرا کر بولی رب تعالی نے تم انسانوں خاص کر مسلمانوں کو ایسے کلمات پاکیزہ نورانی قرآنی آیات و دعائیں عطا فرمائی ہیں کہ اگر میں انکی تاثیر اور برگات و اثرات تم پر کھول دوں تو شاید تمہاری زبان ہر لفظ بولنے سے انکار کر دے بس قرآنی آیات و دعائیں اور دورود شریف کا ورد رکھے کچھ اور بولے ہی ناں۔۔ اللہ اکبر اللہ اکبر میں نے شکر الحمدُللہ کہتے ہوۓ پوچھا اور بتائیں اس نے مجھے بغور دیکھا اور ٹھنڈی سانس بھر کر بولی قدرت اپنے راز کب یوں ہی عیاں کرتی ہے تمہاری سمندر سے گفتگو میں نے سنی تھی میں حیرت سے اچھل پڑی تو وہ مسکرا کر بولی سمندر بھی تو زمین پر ہے ناں ۔۔ میں نے سر ہلانے پر اکتفا کیا تو وہ بولی رازِ قدرت کارِ قدرت مظاہرِ قدرت یہی ھے کہ رب تعالی نے ہر شئے جاندار پیدا فرمائی اور اسے زبان اور شعور عطا کیا ہے اس پوری کائنات میں کوئی شئیے ایسی نہیں جو زی روح نہیں ہے زبان نہیں رکھتا شعور نہیں رکھتا ۔۔ میں اپنے ذہن میں سوچ رہی تھی کہ ہم انسان بھی کتنے جاہل ہیں جو شعور رکھتے ہوۓ بھی بے شمار چیزوں کو بے جان گردانتے ہیں وہ جیسے میری سوچ پڑھتے ہوۓ بولی تم صحیح سوچ رہی ہو انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات قرار دیا ھے ہر مخلوق سے افضل انسان کو تسخیر کرنے کی قوت سے نوازا ہے ۔۔ زمین یعنی میں قدرت کی تخلیق کا ایسا مظہر ہوں جو اپنے اندر بیش بہا خزانے چھپاۓ ہےمیں یعنی زمین ارض ِ دنیا قدرت کا ایک گہرا راز جو اپنے اندر نجانے کتنے راز چھپائے ہے رب تعالی نے آسمان بنا ستون کے تخلیق فرمائی اور اسے زمین کی چھت اور سائبان کر دیا میں یعنی زمین حیرت و رشک سے آسمان کے عروج و بلندیوں کی لا محدود وُسعتوں کو تکتی رہتی ہوں اور فلک کی بلندیاں میری زمینی پاتالی گہرائیوں کو ماپنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ بھی ایک راز ہے کہ ہم دونوں فنائیت کے منتظر ہیں اور یہ خوف جب حد سے تجاوز کرتا ہے تو میں خوفِ ربی سے کانپ اٹھتی ہوں تھر تھرا اٹھتی ہوں مرے مشامِ جاں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور پھر میں اپنے وجود پر بناۓ گئی ہر شے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہوں مگر قدرت کے دستِ شفقت کے رکھتے ہی شانت ہو جاتی ہوں ۔۔اور یاد رہے کہ دستِ قدرت کی اس شفقت میں ہی ایک مخصوص مدت تک انسان کی بقا ہے ۔۔ زمین سے لی گئی مٹی سے انسان کی تخلیق فرمائی گئی اور پھر مٹی کا انسان رب تعالی کی طرف سے اسی مٹی کو لوٹا دیا جاتا ہے کیونکہ قدرت کا یہی وعدہ ہے مٹی سے ۔۔۔زمین آسمان کائناتی وسعتوں کو تسخیر کیا ہے انسان نے اور تب تک کرتا رہے گا جبتک صور نہ پھونکا جائیگا ۔۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی ۔۔ میں مٹی کو تکنے لگی جو سر جھکاۓ اپنی مٹی کے آئینے میں اپنے ہی عکس کو تکتے ہوۓ جانے کس گہری سوچ میں پھر مٹی ہونے لگی تھی ۔۔ایک سوال پھر میرے کپکپاتے لبوں پر تھرتھرایا اگر اگر ۔ میں نے خوف سے لرزتے دل کو سنبھالتے ہوۓ اٹکتے ہوۓ پوچھا ۔۔ جب میں مٹی میں دفن ہوں گی تو کیا تم ۔۔ تو کیا تم میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو گی۔۔؟ وہ اپنے سارے رنگوں سمیت سر اٹھا کر گہری نظروں سے مجھے دیکھنے لگی ۔۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ اسکی نگاہ میرے مشامِ جاں میں اترنے لگی ہو میں نے دل میں کلمہ پڑھتے ہوۓے آنکھیں بند کر لیں جہاں چشم تصور میں مجھے میری قبر میں دفنایا جا رہا تھا ۔ مجھے لگا جیسے اس نے میرا خیال میرا تصور سونگھا ہو میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ ہنوز مجھے گہری نگاہوں سے تک رہی تھی مجھے اس کی آنکھوں میں مٹیالی مٹی یعنی اپنی قبر کا رنگ دکھنے لگا میں نے گھبرا کر پھر نظریں جھکا لیں اسکی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی مٹی انسان کی مٹی کو سونگھ لیتی ہے اور جان لیتی ہے کہ اسے اس مٹی کیساتھ کیسا بتاؤ کرنا ہے سرچکے بال سے لے کر پیر کی مٹی تلک ذکر ربی کے نور کی جگمگاہٹ ساتھ لاؤ گی درودوں کے گلوں کی خوشبو سے تمہارا وجود معطر ہو گا خوف ِ خدا سے باشیں برساتی آنکھوں سے ادا کیے گئے سجدوں کی نمی ساتھ لاؤ گی تو میری مجال نہیں کہ میں تمہارے جسم کی مٹی کو روندوں ۔۔ نہ نہ یہ میری مجال نہیں یہاں مجھے اپنی مٹی ہر فخر محسوس ہوتا ہے میں اس کی تکریم کرتی ہوں ۔۔ یکدم بھرای آواز میں کہنے لگی میرے کم کہے کو زیادہ سمجھنا اور لکھ کر عالم کو بتا دینا کہ مٹی نے مٹی ہونے سے پہلے کیا کہا یہ کہہ کر وہ چہرہ گم ہو گیا اور میرے ہاتھوں میں بس بھربھری مٹی رہ گئی ۔۔ میں جلدی سے اٹھکر دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں آکر جائے نماز بچھا کر سجدے میں گر گئی اور میری آنکھیں بارشیں برسانے لگیں اور میراروم روم خاتمہ بالخیر کی دعا کرنے لگا ۔۔ اللہ پاک ہم سب کو دل کی نرمی کیساتھ آنکھ کی نمی عطا فرما کر قبر کی مٹی کی نرمی نصیب فرماۓ آمین ثمہ آمین
شاز ملک فرانس