نظم
ہم بھی کتنے عجیب سے ہیں ناں
لذتِ خواب کی تڑپ رکھ کر
اپنی آنکھیں نچوڑ لیتے ہیں
سرحدِ نیند پر اچانک ہی
اپنی بینائی کے خزینے کو
کرکے مصلوب ان اندھیروں میں
بے سہارا سا چھوڑ دیتے ہیں
منہ حقیقت سے موڑ لیتے ہیں
ہم بھی کتنے عجیب سے ہیں ناں
جو محبت کے آسمانوں پر
حاجبِ دل کے چاند تاروں کو
توڑ لانے کی بات کرتے ہیں
بھول جاتے ہیں اس حقیقت کو
کہ اناؤں کی قید میں ہم ہی
اپنے لفظوں کے پھینک کر پتھر
کتنے دل توڑ پھوڑ دیتے ہیں
اور پھر ہجر ہجر کرتے ہیں
رنج و غم درد چھانٹ لیتے ہیں
بیٹھ کر ہم گماں کی چوکھٹ پر
دل کی روشن جبین پر ابھری
ان گنت ہجر کی لکیروں کو
خود ہی گن گن کے خود سلگتے ہیں
بیتے کل کا ملال کرتے ہیں
خود سے ہی بدگمان رہتے ہیں
جسم کے پیرہن میں لپٹی روح
اور اس روح کے رواں آنسو
ہم کو دکھتے نہیں نہیں دکھتے
ہم بھی کتنے عجیب سے ہیں ناں